عید ‏‏مباہلا ‏حق ‏کا ‏دن ‏ ‏‏

عید مبا ہلا

🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹

عید مباہلہ کیا ہے کب واقع ہوئی 
خود بھی پڑہیں اور مؤمنین کرام کی دینی معلومات کے لئے شیئر کریں۔۔۔۔

۲۴ ذی الحجہ عید مباہلہ کا دن ہےاس دن رسول خدا (ص) نے نصاریٰ نجراں سے مباہلہ کیا اور اسلام کو عیسایت پر کامیابی عطا کی۔
فتح مکہ کے بعد پیغمبر اسلام (ص) نے نجراں کے نصاریٰ کی طرف خط لکھا جس میں اسلام قبول کرنے کی دعوت دی۔ نصاریٰ نجراں نے اس مسئلہ پر کافی غور و فکر کرنے کے بعد یہ فیصلہ کیا کہ ساٹھ افراد پر مشتمل ایک کمیٹی تشکیل دی جائے جو حقیقت کو سمجھنے اور جاننے کے لئے مدینہ روانہ ہو۔
نجران کا یہ قافلہ بڑی شان و شوکت اور فاخرانہ لباس پہنے مدینہ منورہ میں داخل ہوتا ہے ۔ میر کارواں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ کے گھر کا پتہ پوچھتا ہے، معلوم ہوتا کہ پیغمبر اپنی مسجد میں تشریف فرما ہیں ۔
کارواں مسجد میں داخل ہوتا ہے ۔پیغمبر نے نجران سے آئے افراد کے نسبت بے رخی ظاہر کی ، جو کہ ہر ایک کیلئے سوال بر انگیز ثابت ہوا ۔ ظاہر سی بات ہے کارواں کے لئے بھی ناگوار گذرا کہ پہلے دعوت دی اب بے رخی دکھا رہیں ہیں ! آخر کیوں ۔
ہمیشہ کی طرح اس بار بھی علی(ع) نے اس گتھی کو سلجھایا ۔ عیسائیوں سے کہا کہ آپ تجملات اور سونے جواہرات کے بغیر، عادی لباس میں آنحضرت(ص) کی خدمت میں حاضر ہو جائیں ، آپکا استقبال ہوگا۔
اب کارواں عادی لباس میں حضرت کی خدمت میں حاضر ہوئے ۔ اس وقت پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ نے ان کا گرم جوشی سے استقبال کیا اور انہیں اپنے پاس بٹھایا ۔میر کارواں ابوحارثہ نے گفتگو شروع کی : آنحضرت کا خط موصول ہوا ، مشتاقانہ آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے تاکہ آپ سے گفتگو کریں۔
-جی ہاں وہ خط میں نے ہی بھیجا ہے اور دوسرے حکام کے نام بھی خط ارسال کرچکا ہوں اور سب سے ایک بات کے سوا کچھ نہیں مانگا ہے وہ یہ کہ شرک اور الحاد کو چھوڑ کر خدای واحد کے فرمان کو قبول کرکے محبت اور توحید کے دین اسلام کو قبول کریں ۔
-اگر آپ اسلام قبول کرنے کو ایک خدا پر ایمان لانے کو کہتے ہو تو ہم پہلے سے ہی خدا پر ایمان رکھتے ہیں ۔
-اگر آپ حقیقت میں خدا پر ایمان رکھتے ہو تو عیسی کو کیوں خدا مانتے ہو اور سور کے گوشت کھانے سے کیوں اجتناب نہیں کرتے ۔
- اس بارے میں ہمارے پاس بہت سارے دلائل ہیں؛ عیسی مردوں کو زندہ کرتے تھے ۔ اندھوں کو بینائی عطا کرتے تھے ، پیسان سے مبتلا بیماروں کو شفا بخشتے تھے ۔
- آپ نے عیسی علیہ السلام کے جن معجرات کو گنا وہ صحیح ہیں لیکن یہ سب خدای واحد نے انہیں ان اعزازات سے نوازا تھا اس لئے عیسی کی عبادت کرنے کے بجائے اسکے خدا کی عبادت کرنی چاہئے ۔
پادری یہ جواب سن کے خاموش ہوا۔ اور اس دوراں کارواں میں شریک کسی اور نے ظاہرا شرحبیل نے اس خاموشی کو توڑ :
-عیسی، خدا کا بیٹا ہے کیونکہ انکی والدہ مریم نے کسی کے ساتھ نکاح کئے بغیر انہیں جنم دیا ہے ۔
اس دوران اللہ نے اپنے حبیب کو اسکا جواب وحی فرمایا: عیسی کی مثال آدم کے مانند ہے؛کہ اسے(ماں ، باپ کے بغیر)خاک سے پیدا کیا گیا۔إِنَّ مَثَلَ عِيسَى عِندَ اللّهِ كَمَثَلِ آدَمَ خَلَقَهُ مِن تُرَابٍ ثِمَّ قَالَ لَهُ كُن فَيَكُونُ{آل عمران /59}
اس پر اچانک خاموشی چھا گئ اور سبھی بڑے پادری کو تک رہیں ہیں اور وہ خود شرحبیل کے کچھ کہنے کے انتظار میں ہے اور خود شرحبیل خاموش سرجھکائے بیٹھا ہے۔
آخر کار اس رسوائی سے اپنے آپ کو بچانے کیلئے بہانہ بازی پر اتر آئے اور کہنے لگے ان باتوں سے ہم مطمئن نہیں ہوئےہیں اس لئے ضروری ہے کہ سچ کو ثابت کرنے کے لئے مباھلہ کیا جائے ۔ خدا کی بارگاہ میں دست بہ دعا ہو کے جھوٹے پر عذاب کی درخواست کریں۔
ان کا خیال تھا کہ ان باتوں سے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ اتفاق نہیں کریں گے ۔ لیکن ان کے ہوش آڑ گئے جب انہوں نے سن:
اے عیسائیو! اپنے بیٹوں ، خواتین اور اپنے نفوس کو لے کے آئیں ؛ اسکے بعد مباھلہ کرتے ہیں اور جھوٹے پر الہی لعنت طلب کریں گے ۔فَمَنْ حَآجَّكَ فِيهِ مِن بَعْدِ مَا جَاءكَ مِنَ الْعِلْمِ فَقُلْ تَعَالَوْاْ نَدْعُ أَبْنَاءنَا وَأَبْنَاءكُمْ وَنِسَاءنَا وَنِسَاءكُمْ وَأَنفُسَنَا وأَنفُسَكُمْ ثُمَّ نَبْتَهِلْ فَنَجْعَل لَّعْنَةُ اللّهِ عَلَى الْكَاذِبِينَ{آل عمران/61}
اس پرطے یہ ہوا کہ کل سورج کے طلوع ہونے کے بعد شہر سے باہر (مدینہ کے مشرق میں واقع)صحرا میں ملتے ہیں ۔ یہ خبر سارے شہر میں پھیل گئ ۔ لوگ مباھلہ شروع ہونے سے پہلے ہی اس جگہ پر پہنچ گئے ۔ نجران کے نمایندے آپس میں کہتے تھے کہ : اگر آج محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ)اپنے سرداروں اور سپاہیوں کے ساتھ میدان میں حاضر ہوتے ہیں ، تو معلوم ہوگا کہ وہ حق پر نہیں ہے اور اگر وہ اپنے عزیزوں کو لے آتا ہے تو وہ اپنے دعوے کا سچا ہے۔
سب کی نظریں شہر کے دروازے پر ٹکی ہیں ؛ دور سے مبہم سایہ نظر آنے لگا جس سے ناظرین کی حیرت میں اضافہ ہوا ، جو کچھ دیکھ رہے تھے اسکا تصور بھی نہیں کرتے تھے ۔ پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وآلہ ایک ہاتھ سے حسین علیہ السلام کو آغوش میں لئے ہوئےہیں اور دوسرے ہاتھ سےحسن علیہ السلام کوپکڑ کر بڑ رہے ہیں ۔ آنحضرت کے پیچھے پیچھے انکی دختر گرامی سیدۃ النساء العالمین حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا چل رہی ہیں اور ان سب کے پیچھے آنحضرت کا عموزاد بھائی ، حسنین کا بابا اور فاطمہ کا شوہر علی ابن ابیطالب علیہ السلام ہیں۔

صحرا میں ہمھمہ اور ولولے کی صدائیں بلند ہونے لگیں ۔ کوئی کہہ رہا ہے دیکھو ، پیغمبر اپنے سب سے عزیزوں کو لےآیا ہے۔ دوسرا کہہ رہا ہے اپنے دعوے پر اسے اتنا یقین ہے کہ ان کو ساتھ لایا ہے ۔ اس بیچ بڑے پادری نے کہا : میں تو ان چہروں کو دیکھ رہا ہوں جو اگر پہاڑ کی طرف اشارہ کریں وہ بھی اپنی جگہ سے کھستا ہوا نظر آئے گا اگر انہوں نے دعا کے لئے ہاتھ اٹھائے تو ہم اسی صحرا میں قہر الہی میں گرفتار ہو جائیں گے اور ہمارا نام صفحہ ہستی سے مٹ جائے گا ۔ دوسرے نے کہا تو پھراس کا سد باب کیا ہے ؟
جواب ملا اس کے ساتھ صلح کریں گے اور کہیں گے کہ ہم جزیہ دیں گے تاکہ آپ ہم سے راضی رہیں۔ اور ایسا ہی کیا گیا۔
اس طرح حق کی باطل پر فتح ہوئی ۔ مباھلہ پیغمبر(ص) کی حقانیت اور امامت کی تصدیق کا نام ہے ۔ مباھلہ پیغمبر کےاھل بیت کا اسلام پر آنے والے ہر آنچ پر قربان ہونے کیلئے الہی منشور کا نام ہے ۔تاریخ میں ہم اس مباھلے کی تفسیر کبھی امام علی کی شہادت ، کبھی امام حسن علی شہادت کبھی امام حسین کی شہادت کبھی امام علی زید العابدین کی شہادت ، کبھی امام محمد باقر کی شہادت ، کبھی امام جعفر صادق کی شہادت ، کبھی امام موسی کاظم کی شہادت ، کبھی امام علی رضا کی شہادت ، کبھی امام محمد تقی کی شہادت ، کبھی امام علی النقی کی شہادت ، کبھی امام حسن عسکری کی شہادت اور کبھی امام مھدی کی غیبت سے ملاحظہ کرتے ہیں کہ اس دن سے لے کراسلام کی بقا کیلئے یہی مباھلہ کےلوگ ، اسلام کی بقا کیلئے قربان ہونے کیلئے . . . 

💐🔘🔹صلوات🔹🔘💐
اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وآلِ مُحَمَّدٍ وعَجِّلْ فَرَجَهُمْ

🌷مباہلہ💐، نبوت کی حقانیت 🌷اور امامت کی تصدیق💐 کا نام

عبدالرحمان بن كثير نے جعفر بن محمد، ان كے والد بزرگوار كے واسطہ سے امام حسن (علیہ السلام) سے نقل كيا ہے كہ مباہلہ كے موقع پر آيت كے نازل ہونے كے بعد رسول اكرم(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے نفس كى جگہ ميرے والد كو ليا، ابنائنا ميں مجھے اور میرے بھائی كو ليا، نساءنا ميں ميرى والدہ فاطمہ (علیہا السلام) كو ليا اور اس كے علاوہ كائنات ميں كسى كو ان الفاظ كا مصداق قرار نہیں ديا
۔ رسولخدا حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حجاز اور یمن کے درمیاں نجران نامی علاقےمیں مقیم عیسائیوں کو24 ذیحجہ 9 ہجری قمری کواللہ کی وحدانیت قبول کرنے کی دعوت دی جسے مباہلہ کہتے ہیں۔اور اس دن توحیدی عقیدے کا مشرکانہ عقیدے کا آمنا سامنا ہونا تھا ایکدوسرے کے عقیدے کے بارے میں خدا سے غضب کی دعا کرنی تھی اور توحیدی قافلے کو دیکھ کرہی مشرکوں نےدبے الفاظوں میں اپنی شکست کا اعلان کیا ، اسطرح عقائد کا علمی اور عملی مناظرہ ہوا جس پر علم وعمل کا لا علمی وبی عملی پر غلبہ ہوا جسے اہل بصیرت عید مناتے ہیں ۔کیونکہ اس کامیابی پر اللہ نے ایک آیت نازل فرمائی ہے۔آیئے اس نورنی دن کے تاریخی منظر پر طائرانہ نظرکرکے اپنے اذہان اور عقیدے کو متبرک کرتے ہیں۔

آغاز اسلام میں نجران ہی وہ واحد علاقہ تھا جس میں عیسائی رہا كرتے تھے جنہوں نے بت پرستی چھوڑ كر عیسائیت اختیار كرلی تھی۔ جس وقت پیغمبر اكرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تمام حكومتی مراكز اور مذہبی رؤسا كو خط بھیج كر اسلام كی دعوت دی تو ایک خط نجران كے عیسائی رہنما پاپ كو بھی تحریر كیا جس میں انھیں اسلام كی دعوت دی۔ پیغمبر اكرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) كے نمائندوں نے یہ خط پاپ كے حوالے كیا جس کی تحریر کچھ یوں تھی:

شروع كرتا ہوں خدائے ابراہیم و یعقوب و اسحاق علیہم السلام كے نام سےخدا كے رسول محمد كی جانب سے نجران كے پاپ كے نام، میں ابراہیم و اسحاق و یعقوب علیھم السلام كے خدا كی تعریف بجا لاتا ہوں اور تمھیں بندوں كی پرستش ترك كركے خدا كی عبادت كرنے كی دعوت دیتا ہوں۔ تمھیں اس بات كی دعوت دیتا ہوں كہ بندوں كی ولایت سے نكل كر خدا كی ولایت میں داخل ہو جاؤ اور اگر تمہیں ہماری دعوت منظور نہیں ہے تو جزیہ دو ورنہ تمھارا انجام اچھا نہیں ہوگا۔

پاپ نے خط پڑھنے كے بعد تمام مذہبی اور غیر مذہبی شخصیات كو مشورے كے لئے طلب كیا۔ شرجیل جو مشاوروں میں سے تھا اور عقل و درایت میں بہت ہی معروف تھا اس نے مشورہ دیا كہ ہم نے بارہا اپنے راہنماؤں سے یہ سنا ہے كہ ایك دن منصب نبوت جناب اسحاق كی نسل سے نكل كر حضرت اسماعیل كی اولاد میں منتقل ہو جائے گا، بعید نہیں ہے كہ محمد ص اسماعیل ہی كے فرزندوں میں سے ہوں اور یہ وہی پیغمبر ہوں جن كی بشارت ہمیں دی گئی ہے۔

شرجیل كے مشورے كے بعد اس كمیٹی نے فیصلہ كیا كہ كچھ لوگوں كو نجران كا نمائندہ بنا كر مدینہ بھیجا جائے تاكہ وہ لوگ اس پیغمبر ص کی حقانیت كی تحقیق كریں۔ چنانچہ نجران كے حاكم ابو حارثہ بن علقمہ كی كاركردگی میں ساٹھ افراد پر مشتمل ایک گروہ مدینہ روانہ كیا گیا۔ اس گروہ كے ساتھ عبدالمسیح و ایھم نامی دو مذہبی رہنما بھی تھے۔ نجران کا یہ قافلہ بڑی شان و شوکت سے فاخرانہ لباس پہنے مدینہ منورہ میں داخل ہوتا ہے، یہ لوگ مسجد نبوی میں داخل ہوئے تاكہ پیغمبر اكرم كا نزدیک سے دیدار كر سكیں۔ پیغمبر اكرم(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس گروہ كی یہ حالت دیكھی تو ملاقات كرنے سے انكار كردیا۔ چند روز اسی طرح گزر گئے یہاں تک كہ نجران والے متوجہ ہوئے كہ اس انداز میں پیغمبر سے ملاقات ممكن نہیں ہے لہذا سادہ لباس زیب تن كر كے پیغمبر اكرم كی خدمت میں حاضر ہوئے اور ان سے بحث و مناظرہ شروع كیا۔ پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) كے محكم دلائل كے باوجود عیسائی اپنے مذہب اور اپنے عقائد كی حقانیت پر ڈٹے رہے۔ 

یہاں تک کہ پھر سورۂ آل عمران کی آیت نازل ہوئی جو آیہ مباہلہ کے نام سے مشہور ہے، جس میں پروردگار نے فرمایا" فَمَنْ حَآجَّكَ فِيهِ مِن بَعْدِ مَا جَاءكَ مِنَ الْعِلْمِ فَقُلْ تَعَالَوْاْ نَدْعُ أَبْنَاءنَا وَأَبْنَاءكُمْ وَنِسَاءنَا وَنِسَاءكُمْ وَأَنفُسَنَا وأَنفُسَكُمْ ثُمَّ نَبْتَهِلْ فَنَجْعَل لَّعْنَةُ اللّهِ عَلَى الْكَاذِبِينَ۔ ۔مباہلہ نازل ہوئی خداوندعالم اپنے رسول سے مخاطب ہو کر کہتا ہے، اے پیغمبر ص ! علم كے آجانے كے بعد جو لوگ تم سے كٹ حجتی كریں ان سے كہہ دو كہ آؤ ہم لوگ اپنے اپنے فرزند، اپنی اپنی عورتوں اور اپنے اپنے نفسوں كو بلائیں اور پھر خدا كی بارگاہ میں دعا كریں اور جھوٹوں پر خدا كی لعنت قرار دیں۔اس پر طے یہ ہوا کہ کل سورج کے طلوع ہونے کے بعد شہر سے باہر (مدینہ کے مشرق میں واقع) صحرا میں ملتے ہیں۔
 یہ خبر سارے شہر میں پھیل گئی۔ لوگ مباھلہ شروع ہونے سے پہلے ہی اس جگہ پر پہنچ گئے ۔ نجران کے نمایندے آپس میں کہتے تھے کہ اگر آج محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ) اپنے سرداروں اور سپاہیوں کے ساتھ میدان میں حاضر ہوتے ہیں، تو معلوم ہوگا کہ وہ حق پر نہیں ہے اور اگر وہ اپنے عزیزوں کو لے آتے ہیں تو وہ اپنے دعوے میں سچے ہیں۔ سب کی نظریں شہر کے دروازے پر ٹکی ہیں، دور سے مبہم سایہ نظر آنے لگا جس سے ناظرین کی حیرت میں اضافہ ہوا، جو کچھ دیکھ رہے تھے اسکا تصور بھی نہیں کرتے تھے۔ پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وآلہ ایک ہاتھ سے حسین علیہ السلام کو آغوش میں لئے ہوئے ہیں اور دوسری جانب سے حسن علیہ السلام کا ہاتھ پکڑ رکھا ہے، آنحضرت کے پیچھے پیچھے انکی دختر گرامی سیدۃ النساء العالمین حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا چل رہی ہیں اور ان سب کے پیچھے آنحضرت کا عموزاد بھائی، حسنین کے بابا اور فاطمہ کے شوہر علی ابن ابیطالب علیہ السلام ہیں۔ 

صحرا میں ہمھمے اور ولولے کی صدائیں بلند ہونے لگیں۔ کوئی کہہ رہا ہے دیکھو، پیغمبر اپنے سب سے پیارے عزیزوں کو لے آیا ہے، دوسرا کہہ رہا ہے اپنے دعوے پر انہیں اتنا یقین ہے کہ ان کو ساتھ لائے ہیں۔ ان کے سب سے بڑے پادری نے کہا، میں یہاں ان چہروں کو دیکھ رہا ہوں جو اگر پہاڑ کی طرف اشارہ کریں تو ان پر بھی لرزہ طاری ہو جائے گا اور اگر انہوں نے دعا کے لئے ہاتھ اٹھائے تو ہم اسی صحرا میں قہر الہی میں گرفتار ہو جائیں گے اور ہمارا نام صفحہ ہستی سے مٹ جائے گا۔ دوسرے نے کہا تو پھراس کا سد باب کیا ہے؟ جواب ملا اس کے ساتھ صلح کریں گے اور کہیں گے کہ ہم جزیہ دیں گے تاکہ آپ ہم سے راضی رہیں اور ایسا ہی کیا گیا۔ اس طرح حق کی فتح ہوئی اور باطل سرنگوں ہوا۔ مباہلہ پیغمبر(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی حقانیت اور امامت کی تصدیق کا نام ہے۔ یوں پنجتن پاکؑ کے ذریعے اسلام کو عیسائیت پر ابدی فتح نصیب ہوئی۔

عبدالرحمان بن كثير نے جعفر بن محمد، ان كے والد بزرگوار كے واسطہ سے امام حسن (علیہ السلام) سے نقل كيا ہے كہ مباہلہ كے موقع پر آيت كے نازل ہونے كے بعد رسول اكرم(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے نفس كى جگہ ميرے والد كو ليا، ابنائنا ميں مجھے اور میرے بھائی كو ليا، نساءنا ميں ميرى والدہ فاطمہ (علیہا السلام) كو ليا اور اس كے علاوہ كائنات ميں كسى كو ان الفاظ كا مصداق قرار نہیں ديا لہذا اہلبيت (علیہم السلام) ان کا گوشت و پوست اور خون و نفس ہيں، ہم ان سے ہيں اور وہ ہم سے ہيں۔

اس واقعے کے بعد آپ ص نے فرمايا كہ خدا كى قسم جس نے مجھے نبى بنايا ہے كہ اگر ان لوگوں نے مباہلہ كرليا ہوتا تو يہ وادى آگ سے بھر جاتى، اس كے بعد جابر كا بيان ہے كہ انھيں حضرات ص كى شان ميں يہ آيت نازل ہوئی ہے شعب نے جابر كے حوالہ سے نقل كيا ہے كہ"وَأَنفُسَنَا" ميں رسول اكرم(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تھے اور حضرت على (علیہ السلام) ،"أَبْنَاءنَا" ميں حسن و حسين (علیہما السلام) تھے اور" وَنِسَاءنَا "ميں فاطمہ (علیہا السلام)۔

زمخشرى نے تبصرہ كيا ہے كہ آیہ شريفہ ميں ابناء و نساء كو نفس پر مقدم كيا گيا ہے تا كہ ان كى عظيم منزلت اور ان كے بلندترين مرتبہ كى وضاحت كردى جائے اور يہ بتاديا جائے كہ يہ سب نفس پر بھى مقدم ہيں اور ان پر نفس بھى قربان كيا جاسكتا ہے اور اس سے بالاتر شخصیات كساء كى كوئی دوسرى فضيلت نہيں ہوسكتى ہے۔ واضح رہے كہ فخر رازى نے اس روايت كے بارے ميں لكھا ہے كہ اس كى صحت پر تقريباً تمام اہل تفسير و حديث كا اتفاق و اجماع ہے.

۔۔۔۔۔۔۔۔عید مباہلہ اور آج کے دن حضرت امام علی علیہ السلام کا انگوٹھی عطا کرنا🌴🌴🌴🌴🌴
اس روز 
حضرت علی(علیہ السلام)نے حالت رکوع میں اپنی انگوٹھی ، سائل کو عطا کی اور سورہ مائدہ کی ۵۵ویں آیت نازل ہوئی۔🌲🌴🌻
مرحوم نیشا پوری نے روضة الواعظین میں لکھا ہے: امام باقر(علیہ السلام)نے فرمایا: یہودیوں کا ایک گروہ مسلمان ہوا اور پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ)کے خدمت میں حاضر ہوکر عرض کیا: یا نبی اللہ! آپ کے بعد آپ کا وصی اور خلیفہ کون ہے؟ تو یہ آیت نازل ہوئی: ” انما ولیکم اللہ و رسول والذین آمنوا الذین یقیمون الصلواة و یوتون الزکواة و ھم راکعون“ (سورہ مائدہ ،آیت۵۵)ایمان والو! بس تمہارا ولی اللہ ہے۔اوراس کا رسول اور وہ صاحبان ایمان جو نماز قائم کرتے ہیں اور حالت رکوع میں زکات دیتے ہیں۔
پھر حضرت نے فرمایا: اٹھو ، مسجد میں چلتے ہیں، مسجد کے نزدیک پہنچے،تو ایک سائل مسجد سے باہر نکل رہا تھا، حضرت نے اس سے سوال کیا، کسی نے تم کو کچھ عطا کیا ہے؟ عرض کیا: جی ہاں یہ انگوٹھی عطا کی ہے، آنحضرت نے فرمایا: کس نے دی ہے؟ عرض کیا: یہ شخص جو نماز پڑھ رہا ہے، حضرت نے پوچھا:کس حالت میں اس نے تمہیں یہ عطاء کی ہے؟ عرض کیا: رکوع کی حالت میں، پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ وآلہ)نے تکبیر کہی اور تمام اہل مسجد نے آپ کی پیروی میں تکبیر کہی، پھر حضرت نے فرمایا: میرے بعد یہ آپ کے ولی ہیں۔
ولی یعنی سرپرست اور مادی و معنوی رہبر، یعنی تمہارا سرپرست صرف خداوند عالم، پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ)، علی بن ابی طالب(علیہ السلام)ہیں۔اس آیت میں حضرت علی(علیہ السلام)کی ولایت، پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ)اور خداوند عالم کی ولایت سے مقرون ہے۔ یہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ اہل سنت کی تیس سے زیادہ کتابوں میں اس حدیث کو بیان کیا گیا ہے
🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹
======================
*
 *•┈┈•┈┈•⊰✿Abbas Organization✿⊱•┈┈•┈┈•*

Comments

Popular posts from this blog

Imam Hasan Askari as.

Hazrat Fatima Zehra sa.

Ghadeer kya hai